EN हिंदी
رت نے روایت کے رخ بدلے ہر مسعود سعود گیا | شیح شیری
rut ne riwayat ke ruKH badle har masud saud gaya

غزل

رت نے روایت کے رخ بدلے ہر مسعود سعود گیا

ناصر شہزاد

;

رت نے روایت کے رخ بدلے ہر مسعود سعود گیا
صدقوں سے مفقود ہوئے دل معبد سے معبود گیا

دو فصلیں دو ندی کنارے آپس میں کیا ان کا رشتہ
گھر میں گری جب املی پک کر باغ سے تب امرود گیا

موت محبت کی ور مالا چتا سوئمبر آگ دوشالا
پیار پیا کی پریت کا پیاسا نار انہار میں کود گیا

چاٹی اور چولہا سب اوندھے بے مصرف بیٹھی ہے گوری
بھور بھئے بستی سے بک کر شہر کی جانب دودھ گیا

چھوڑ کے کویتا کیا کچھ پایا دوست تجھے اور نام گنوایا
یہ دن یہ سن ہوئے اکارت یہ جیون بے سود گیا

رنگ دکانوں کی رعنائی خوشبو درگاہوں کی زینت
زلف معنبر اب بن عنبر سیج سہاگ سے عود گیا

سکھیاں سنگت دہی پکوڑے ہالی کھیتیاں کھاد کے توڑے
دور تلک ان قریوں قصبوں برکھا رتوں کا رود گیا