EN हिंदी
رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا | شیح شیری
rumuz-e-maslahat ko zehn par tari nahin karta

غزل

رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا

عاصی کرنالی

;

رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا
ضمیر آدمیت سے میں غداری نہیں کرتا

قلم شاخ صداقت ہے زباں برگ امانت ہے
جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں اداکاری نہیں کرتا

میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے
مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا

میں دامان نظر میں کس لیے سارا چمن بھر لوں
مرا ذوق تماشا بار برداری نہیں کرتا

مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے
خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا

مرے بچے تجھے اتنا توکل راس آ جائے
کہ سر پر امتحاں ہے اور تیاری نہیں کرتا

میں آسیؔ حسن کی آئینہ داری خوب کرتا ہوں
مگر میں حسن کی آئینہ برداری نہیں کرتا