رخ پہ بھولی ہوئی پہچان کا ڈر تو آیا
کم سے کم بھیڑ میں اک شخص نظر تو آیا
نہ سہی شہر اماں ذہن کا کوفہ ہی سہی
گھور جنگل کی مسافت میں نگر تو آیا
کٹ گیا مجھ سے مری ذات کا رشتہ لیکن
مجھ کو اس شہر میں جینے کا ہنر تو آیا
میرے سینے کی طرف خود مرے ناخن لپکے
آخر اس زخم کی ٹہنی پہ ثمر تو آیا
کچھ تو سوئے ہوئے احساس کے بازو تھرکے
اب کے پانی کا بھنور تا بہ کمر تو آیا
بند کمرے کی امس کچھ تو شناسا نکلی
صبح کے ساتھ کا بھٹکا ہوا گھر تو آیا
تن کی مٹی میں اگا زہر کا پودا چپ چاپ
مجھ میں بدلی ہوئی دنیا کا اثر تو آیا
غزل
رخ پہ بھولی ہوئی پہچان کا ڈر تو آیا
نشتر خانقاہی