رواق کہکشاں سے بھی ہو آگے تک گزر تیرا
کہ تیرا عشق ہے منزل تری عزم سفر تیرا
رمیدہ وسعتیں ہوں تندیٔ رفتار سے تیری
بری ہو تنگیٔ افکار سے آہوئے سر تیرا
زمانہ ٹھہر کر پوچھے تیری رفتار و سرعت سے
مجھے بھی ساتھ لیتا چل ارادہ ہے کدھر تیرا
حیات مختصر اور بیکرانی سیل امکاں کی
رقم ہوگا سر افلاک قصہ معتبر تیرا
کسی بحر محیط بیکراں کی آرزو میں ہے
یہ طوفانوں کی موجوں میں سنورنے کا ہنر تیرا
میان آب و ل اک برق ہے شعلہ ہے شبنم ہے
یہ دل یہ قطرۂ خوں یہ وجود مختصر تیرا
تڑپ کہ جستجو کی راہ میں یہ بھی عبادت ہے
تری ہر آہ سوزاں ہے پیام پر اثر تیرا
مسافر ہے مسافت کا صلہ ہے آبلہ پائی
بھلا کب ساتھ چھوڑے گی یہ گردش عمر بھر تیرا
جلن آنکھوں میں سوکھے لب غبار زندگی رخ پر
تھکن کی داستاں کہتا ہے حلیہ سر بسر تیرا
کبھی رکھ کر کسی زانو پہ سر آرام بھی کر لی
گھنی ہے چھاؤں کیوں کھلتا نہیں بند کمر تیرا
چراغ آرزو کی لو بھڑکنے دے ابھی فرحتؔ
وہی تنہا شب فرقت میں ہوگا ہم سفر تیرا
غزل
رواق کہکشاں سے بھی ہو آگے تک گزر تیرا
فرحت نادر رضوی