رشتہ کیسے ٹوٹتا ہے خواب سے تعبیر کا
آؤ دکھلاؤں تمہیں یہ کھیل بھی تقدیر کا
اے مصور ہے یہی حاصل تری تحریر کا
حسن خود ہی پیرہن ہے حسن کی تصویر کا
بن گیا ہے استعارہ حسن عالم گیر کا
آئنہ در آئنہ چہرہ مری تحریر کا
جیسے جیسے قید کی میعاد گھٹتی جائے گی
تنگ ہوتا جائے گا حلقہ مری زنجیر کا
یہ کتاب دل ہے قرآن محبت ہے حضور
مرحلہ در پیش ہے اس حسن کی تفسیر کا
سچ اگر پوچھو تو میرے پیر و مرشد ہیں یہی
میں عقیدت مند ہوں قیصرؔ جناب میرؔ کا

غزل
رشتہ کیسے ٹوٹتا ہے خواب سے تعبیر کا
قیصر صدیقی