روشنی میرے چراغوں کی دھری رہنا تھی
پھر بھی سورج سے مری ہم سفری رہنا تھی
موسم دید میں اک سبز پری کا سایہ
اب گلہ کیا کہ طبیعت تو ہری رہنا تھی
میں کہ ہوں آدم اعظم کی روایت کا نقیب
میری شوخی سبب در بہ دری رہنا تھی
خواب عرفان حقیقت کے تمنائی تھے
زندگی اور مری راہبری رہنا تھی
آج بھی زخم ہی کھلتے ہیں سر شاخ نہال
نخل خواہش پہ وہی بے ثمری رہنا تھی
ساز و سامان تعیش تو بہت تھے یاورؔ
اپنے حصے میں یہی حرف گری رہنا تھی

غزل
روشنی میرے چراغوں کی دھری رہنا تھی
یعقوب یاور