روشنی لے کر اندھیری رات میں نکلا نہ کر
رات پردے کے لیے ہے خود کو بے پردا نہ کر
دہر کا پھیلاؤ بھی نقطہ نظر آنے لگے
شعر کہتا ہے تو کہہ اتنا مگر سوچا نہ کر
ایک دن تو بھی کسی تارے سے ٹکرا جائے گا
دوست میرے رات کی گلیوں میں یوں گھوما نہ کر
چاند بھی اترا تھا پچھلی شب اسی تالاب میں
کیوں چمکتا ہے نہا دھو کر بدن پونچھا نہ کر
آئنہ چمکائے رکھ سب کچھ نظر آ جائے گا
جس کی چاہت ہو اسے خود سے جدا سمجھا نہ کر
دوپہر کی لہر چہرے کو جھلس دے گی خلیلؔ
گھر کی ٹھنڈک چھوڑ کر پیڑوں تلے بیٹھا نہ کر
غزل
روشنی لے کر اندھیری رات میں نکلا نہ کر
خلیل رامپوری