رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے
لو جھوٹ جانتے ہو اک دن دکھا ہی دیں گے
آواز کی طرح سے بیٹھیں گے آج اے جاں
دیکھیں تو آپ کیوں کر ہم کو اٹھا ہی دیں گے
اڑ جاؤں گا جہاں سے عاشق کا رنگ ہو کر
نقش قدم نہیں ہوں جس کو مٹا ہی دیں گے
غیروں کی جستجو کی مدت سے آرزو ہے
یہ یاد وہ نہیں ہے جس کو بھلا ہی دیں گے
شعلے نکل رہے ہیں ہر استخواں سے اپنی
شمعیں یہ وہ نہیں ہیں جس کو بجھا ہی دیں گے
خاموش گفتگو ہیں افسردہ آرزو ہیں
وہ دل نہیں ہمارا جس کو ہنسا ہی دیں گے
اس خاک تک پہنچ کر پھرنا نسیمؔ مشکل
ہوں اشک اوفتادہ کیوں کر اٹھا ہی دیں گے
غزل
رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے
نسیم دہلوی