رقص بسمل کی مرے دل کو ادا بھی آئے
مجھ سے بچھڑو تو تڑپنے کا مزا بھی آئے
عالم حبس ہے کچھ ٹھنڈی ہوا بھی آئے
یاد ایسے میں تری کوئی وفا بھی آئے
چند لمحوں کو ہٹا اپنی انا کے پردے
کھڑکیاں کھول تو کچھ تازہ ہوا بھی آئے
اب کہاں سے تمہیں لوٹائیں تمہارے وہ خطوط
ہم تو کب کا انہیں دریا میں بہا بھی آئے
غزل
رقص بسمل کی مرے دل کو ادا بھی آئے
جاوید نسیمی