رقص آشفتہ سری کی کوئی تدبیر سہی
لو مرے پاؤں میں اک اور بھی زنجیر سہی
امتحاں اس دل پر شوق کا کرتے رہیے
اور اس جرم وفا پر کوئی تعزیر سہی
طعن و دشنام سے دیوانے نہ باز آئیں گے
کوئی الزام سہی تہمت تقصیر سہی
ہم تو آوارۂ صحرا ہیں ہمیں کیا مطلب
ان کی محفل میں جنوں کی کوئی توقیر سہی
ہر کوئی یوسف کنعاں تو نہیں بن سکتا
میرا فردا ہی مرے خواب کی تعبیر سہی
قافلے کتنے ہی منزل سے بھٹک جاتے ہیں
ہم مسافر نہ سہی ہم کوئی رہگیر سہی
نعرۂ زلف صنم شرط جنوں کیا معنی
درد رسوا ہی سہی عشق جہانگیر سہی
غزل
رقص آشفتہ سری کی کوئی تدبیر سہی
عرشی بھوپالی