رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
اب اور ہی معشوق سے یارانہ کریں گے
باندھیں گے کسی اور ہی جوڑے کا تصور
سر دھیان میں اس زلف کے مارا نہ کریں گے
امکان سے خارج ہے کہ ہوں تجھ سے مخاطب
ہم نام کو بھی تیرے پکارا نہ کریں گے
یک بار کبھی بھولے سے آ جائیں تو آ جائیں
لیکن گزر اس گھر میں دوبارا نہ کریں گے
کیا خوب کہا تو نے جو کھولوں ابھی آغوش
ملنے سے مرے آپ کنارا نہ کریں گے
گو خاک میں مل جائیں ہم اور وضع بدل جائیں
پر تجھ سے ملاقات خود آرا نہ کریں گے
اس نرگس بیمارؔ سے رکھتے ہیں شباہت
ہرگز سوئے عبہر بھی اشارا نہ کریں گے
غزل
رنجش تری ہر دم کی گوارا نہ کریں گے
شیخ علی بخش بیمار