رنج پر رنج مصیبت سی مصیبت دیکھی
ہجر مولا میں یہ آرام کی صورت دیکھی
محو دیدار رہے حشر میں عاشق تیرے
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی خلد کی صورت دیکھی
لے لیا وعدۂ بخشش بھی دہائی کر کے
شافع حشر کی امت سے محبت دیکھی
آ گئی مجھ کو نظر غایت چشم مشتاق
قبر میں آ کے محمد کی جو صورت دیکھی
آزماتی ہے شب ہجر مجھے کیا ہمدم
میں تو خوش ہوں کہ جدائی کی حقیقت دیکھی
جلوہ کا وعدہ قیامت پہ کیا تھا موقوف
آپ کے ہجر میں سو بار قیامت دیکھی
خوش نصیبی ہے کہ میں اشرف مخلوق ہوا
للہ الحمد غم عشق کی لذت دیکھی
خار طیبہ کو گل خلد سے بڑھ کر سمجھے
ہم نے ان کانٹوں میں وہ بوئے محبت دیکھی
دور ساغر سے تو پہلے ہی نہ تھا ہوش مجھے
میں نے ساقی کی نگاہوں میں کرامت دیکھی
پردۂ حشر میں پوشیدہ رکھا اپنا جمال
اس نے جب طالب دیدار کی کثرت دیکھی
دختر رز کی نگاہوں سے بچائے اللہ
آپ نے راسخؔ مے خوار کی حالت دیکھی

غزل
رنج پر رنج مصیبت سی مصیبت دیکھی
محمد یوسف راسخ