رنج گران شوق کا حاصل نہ کہہ اسے
ترک سفر کیا ہے تو منزل نہ کہہ اسے
یہ ضبط ضبط غم نہیں اک بے دلی سی ہے
یہ دل حریف درد نہیں دل نہ کہہ اسے
طغیانیاں کچھ اور ہیں موجوں میں ریت کی
میں ڈوبتا ہوں عشرت ساحل نہ کہہ اسے
مرتا نہیں ہوں موت کی بے حاصلی پہ میں
جیتا اگر ہوں الفت حاصل نہ کہہ اسے
ملنا سفر کا اور بچھڑنا سفر کا ہے
دنیا تو رہ گزار ہے محفل نہ کہہ اسے

غزل
رنج گران شوق کا حاصل نہ کہہ اسے
مغنی تبسم