EN हिंदी
رنگوں لفظوں آوازوں سے سارے رشتے ٹوٹ گئے | شیح شیری
rangon lafzon aawazon se sare rishte TuT gae

غزل

رنگوں لفظوں آوازوں سے سارے رشتے ٹوٹ گئے

شفقت تنویر مرزا

;

رنگوں لفظوں آوازوں سے سارے رشتے ٹوٹ گئے
سیل بلا میں دشت خلا کے کتنے کنارے ٹوٹ گئے

گونگے بہرے لوگوں سے اب ساری عمر نباہنا ہے
جینا مرنا ایک برابر کچے دھاگے ٹوٹ گئے

دل کے گرد حصار کھنچا تو اس کا ملنا محال ہوا
چاروں کھونٹ آوارہ پھرے جب پاؤں بھی اپنے ٹوٹ گئے

کھنڈر کھنڈر سب آوازوں سے گونج پڑیں گے بولو تو
ایک صدا وہ تھی جس سے محلوں کے کنگرے ٹوٹ گئے

شیشہ و سنگ کے کھیل کے سائے میں رہنے والے لوگو
اک اک کر کے دل میں چبھو لو جو جو شیشے ٹوٹ گئے

شور شرابہ خون خرابہ جو بھی ہو کچھ کم بھی نہیں
شہر پناہ کے آہنی بوجھل سب دروازے ٹوٹ گئے

چپ کے بندھن ٹوٹیں گے تو پاؤں میں لوہا بولے گا
پھر دیکھو گے سانس کے سارے رشتے ناطے ٹوٹ گئے