EN हिंदी
رنگوں کی وحشتوں کا تماشا تھی بام شام | شیح شیری
rangon ki wahshaton ka tamasha thi baam-e-sham

غزل

رنگوں کی وحشتوں کا تماشا تھی بام شام

منیر نیازی

;

رنگوں کی وحشتوں کا تماشا تھی بام شام
طاری تھا ہر مکاں پہ جلال دوام شام

گلدستۂ جہات تھا نیرنگ راہ عشق
تھا اک طلسم حسن خیابان دام شام

آگے کی منزلوں کی طرف شام کا سفر
جیسے شبوں کے دل میں تھا شہر قیام شام

باندھے ہوئے ہیں وقت سبھی اس کے حکم میں
ہے جس خدا کے ہاتھ میں کار نظام شام

دھندلا گئی ہے شام شب خام سے منیرؔ
خالی ہوا کشش کی شرابوں سے جام شام