رنگ بھرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
گل نکھرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
عہد برنائی کے یہ اوراق رنگیں
کیوں بکھرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
سیڑھیاں شیشے کی پاؤں سنگ کے ہیں
ہم اترتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
اب تو ہم اخبار میں چھپنے لگے ہیں
نام کرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
رہ گزار شوق ہے یہ زیست جس سے
ہم گزرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ

غزل
رنگ بھرتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
خاور نقیب