رمز گر بھی گیا رمز داں بھی گیا
حسن کے ساتھ حسن بیاں بھی گیا
سر سے تاروں بھری سر زمیں بھی گئی
پاؤں سے خاک کا آسماں بھی گیا
پھول ہی پھول تھے کنج آزار میں
تم وہاں بھی نہ تھے میں وہاں بھی گیا
پہلے مٹی اڑی منزلوں کی طرف
پھر اسے ڈھونڈنے کارواں بھی گیا
میں اکیلا نہ تھا کوئے رسوائی میں
ساتھ ویرانۂ جسم و جاں بھی گیا
رنگ پستی کے پھر بھی نہ افشا ہوئے
یوں تو پاتال تک آسماں بھی گیا
عشق میں بام و در بھی نہ پیچھے رہے
ساتھ اپنے مکیں کے مکاں بھی گیا
تابشؔ اپنے بسیرے کی جانب چلو
اس سے کیا تم کو سورج جہاں بھی گیا
غزل
رمز گر بھی گیا رمز داں بھی گیا
عباس تابش