EN हिंदी
رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض | شیح شیری
rakhte hain mere ashk se ye dida-e-tar faiz

غزل

رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض

ماہ لقا چنداؔ

;

رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض
دامن میں لیا اپنے ہے دریا نے گہر فیض

پر نور عجب کیا ہے کرے مجھ کو کرم سے
رکھتی ہے دو عالم پہ تری ایک نظر فیض

اک جام پہ بخشے ہے یہاں رتبہ جسم کو
کس کی نگہ مست سے رکھتا ہے خمر فیض

محروم نہیں کوئی ترے خوان کرم سے
ہے حصر خدائی کا ہی تجھ پہ مگر فیض

چنداؔ رہے پرتو سے ترے یا علی روشن
خورشید کو ہے در سے ترے شام و سحر فیض