رہتے ہیں اس طرح سے غم و یاس آس پاس
میں ان سے دور دور تو یہ میرے پاس پاس
یہ بھی نشہ میں کیوں نہ مرے ساتھ چور ہو
ساقی خدا کے واسطے رکھ دے گلاس پاس
پھر چاک دامنی کی ہمیں قدر کیوں نہ ہو
جب اور دوسرا نہیں کوئی لباس پاس
چکرا رہا ہے کوچۂ گیسو میں جا کے دل
منڈلا رہی ہے موت مسافر کے آس پاس
ناطقؔ خدا کی شان کہ اپنا نہیں کوئی
ہونے کو یوں تو ساری خدائی ہے آس پاس
غزل
رہتے ہیں اس طرح سے غم و یاس آس پاس
ناطق گلاوٹھی