EN हिंदी
رہی ہے پردۂ الفت میں مصلحت کیا کیا | شیح شیری
rahi hai parda-e-ulfat mein maslahat kya kya

غزل

رہی ہے پردۂ الفت میں مصلحت کیا کیا

خورشید رضوی

;

رہی ہے پردۂ الفت میں مصلحت کیا کیا
عداوتوں میں ہوئی ہے مفاہمت کیا کیا

مرے عزیز وطن کی فضا نے بھر دی ہے
مری سرشت کے اندر منافقت کیا کیا

کبھی اصول کی غیرت کبھی زیاں کا سوال
دماغ و دل میں رہی ہے مشاورت کیا کیا

صدائے دل کو تہ دل میں قید کر کے رکھا
رہا ہے طوق گلو شوق عافیت کیا کیا

مہک تھمی جو لہو کی تو چونک کر ہم نے
ہوا سے پوچھی ہے زخموں کی خیریت کیا کیا

بہت عزیز ہیں آنکھوں کی پتلیاں لیکن
ملے ہیں دکھ بھی مجھے ان کی معرفت کیا کیا

بہت دنوں میں کل آئینہ سامنے پا کر
ہوئی ہے عمر گزشتہ کی تعزیت کیا کیا

اٹا ہوا بسر و چہرہ سیم و زر کا غبار
ملی ہے لاشۂ افکار کی دیت کیا کیا

نہاں ہے ترکش امکاں میں ناوک تقدیر
مدام سر پہ ستارے ہیں ان گنت کیا کیا