رہ گزاروں میں روشنی کے لیے
لے کے نکلے ہیں آندھیوں میں دیے
ذائقہ تلخ ہے محبت کا
آدمی زہر غم پیے نہ پیے
دل میں یادوں کے رت جگے جیسے
ٹمٹماتے ہوں مرگھٹوں کے دیے
دل میں طوفان ہیں چھپائے ہوئے
ہم تو بیٹھے ہیں اپنے ہونٹ سیے
کوئی تجھ سا نظر نہیں آتا
دل نے سو رنگ انتخاب کیے
در بدر شہر میں پھرے یارو
اپنے کاندھے پہ اپنی لاش لیے
دل کی دل میں رہیں تمنائیں
آنکھوں آنکھوں میں کتنے اشک پیے
جان پیاری ہمیں بھی تھی ایوبؔ
اپنی خاطر مگر کبھی نہ جیے

غزل
رہ گزاروں میں روشنی کے لیے
ایوب رومانی