رہے رقیب سے باہم وہ سیم بر محظوظ
ہوا نہ آہ کا اپنے کبھی اثر محظوظ
دریغ چشم کرم سے نہ رکھ کہ اے ظالم
کرے ہے دل کو مرے تیری یک نظر محظوظ
نہ بار بار ہوس ہو نبات کی مجھ کو
رکھے جو ایک ہی بوسہ میں لب شکر محظوظ
تماشہ ایک خدائی کا ہم دکھاتے ہیں
تو کیجئے بندہ نوازی ہوئے ہو مگر محظوظ
یہی دعا ہے کہ چنداؔ کا دل علی ولی
تیرے کرم سے رہے شام اور سحر محظوظ
غزل
رہے رقیب سے باہم وہ سیم بر محظوظ
ماہ لقا چنداؔ