EN हिंदी
رہ وفا میں کوئی صاحب جنوں نہ ملا | شیح شیری
rah wafa mein koi sahib-e-junun na mila

غزل

رہ وفا میں کوئی صاحب جنوں نہ ملا

شکیل بدایونی

;

رہ وفا میں کوئی صاحب جنوں نہ ملا
دلوں میں عزم تو پائے رگوں میں خوں نہ ملا

ہزار ہم سے مقدر نے کی دغا لیکن
ہمیں مٹا کے مقدر کو بھی سکوں نہ ملا

گلوں کے رخ پہ وہی تازگی کا عالم ہے
نہ جانے ان کو غم روزگار کیوں نہ ملا

کہاں سے لائے وہ اک بوالہوس مذاق سلیم
جسے نظر تو ملی جذبۂ دروں نہ ملا

ملی تھیں ترک محبت کے بعد بھی آنکھیں
مگر وہ کیف وہ اعجاز وہ فسوں نہ ملا

فلک شگاف تھا اس درجہ اضطراب عمل
کہ بندگی میں فرشتوں کو بھی سکوں نہ ملا

نہ جانے کس کے سہارے رکا ہوا ہے فلک
ہمیں تو فرش زمیں پر کوئی ستوں نہ ملا