EN हिंदी
رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر | شیح شیری
rah ke parde mein ruKH-e-pur-nur ki baaten na kar

غزل

رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر

مضطر خیرآبادی

;

رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
دور سے باتیں سنا کر دور کی باتیں نہ کر

بیٹھ کر دنیا میں زاہد حور کی باتیں نہ کر
رہ کے اتنی دور اتنی دور کی باتیں نہ کر

لن ترانی جلوۂ جاناں تری اچھی نہیں
میں کوئی موسیٰ نہیں ہوں طور کی باتیں نہ کر

میری بے ہوشی بڑھی جاتی ہے اس تدبیر سے
چارہ گر تو دیدۂ مخمور کی باتیں نہ کر

اپنا غم مجھ کو پرائے غم سے یاد آنے لگا
ہم نشیں مجھ سے دل رنجور کی باتیں نہ کر

پاس آنے کو جو کہتا ہوں تو مضطرؔ ناز سے
کہتے ہیں چل دور اتنی دور کی باتیں نہ کر