رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
دور سے باتیں سنا کر دور کی باتیں نہ کر
بیٹھ کر دنیا میں زاہد حور کی باتیں نہ کر
رہ کے اتنی دور اتنی دور کی باتیں نہ کر
لن ترانی جلوۂ جاناں تری اچھی نہیں
میں کوئی موسیٰ نہیں ہوں طور کی باتیں نہ کر
میری بے ہوشی بڑھی جاتی ہے اس تدبیر سے
چارہ گر تو دیدۂ مخمور کی باتیں نہ کر
اپنا غم مجھ کو پرائے غم سے یاد آنے لگا
ہم نشیں مجھ سے دل رنجور کی باتیں نہ کر
پاس آنے کو جو کہتا ہوں تو مضطرؔ ناز سے
کہتے ہیں چل دور اتنی دور کی باتیں نہ کر
غزل
رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
مضطر خیرآبادی