EN हिंदी
رات روشن نہ ہوئی کاہکشاں ہوتے ہوئے | شیح شیری
raat raushan na hui kahkashan hote hue

غزل

رات روشن نہ ہوئی کاہکشاں ہوتے ہوئے

مصطفی شہاب

;

رات روشن نہ ہوئی کاہکشاں ہوتے ہوئے
میں بھی لو دے نہ سکا شعلۂ جاں ہوتے ہوئے

کر لیا جذب مرا دور کناروں نے وجود
موج دریا نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہوئے

کیوں گراں بار ہے احساس پہ تنہائی کی صبح
پاس میرے ترے ہونے کا گماں ہوتے ہوئے

یہ بھی ممکن ہے کہ میں جنگ میں فاتح ٹھہروں
تیرے قبضے میں میرے تیر و کماں ہوتے ہوئے

جب کہ بے رنگ رہے باغ بہاروں میں شہابؔ
تیرے جنگل میں کھلے پھول خزاں ہوتے ہوئے