رات ہم نے جہاں بسر کی ہے
یہ کہانی اسی شجر کی ہے
یہ ستارے یہاں کہاں سے آئے
یہ تو دہلیز میرے گھر کی ہے
نیند کیا کیجیے کہ آنکھوں میں
اک نئی جنگ خیر و شر کی ہے
میرے کچے مکان کے اندر
آج تقریب چشم تر کی ہے
ہجر کی شب گزر ہی جائے گی
یہ اداسی تو عمر بھر کی ہے
عشق اپنی جگہ مگر ہم نے
منتخب اور ہی ڈگر کی ہے
اٹھ رہا ہے دھواں مرے گھر میں
آگ دیوار سے ادھر کی ہے
ہم نے اپنے وجود کی چادر
تنگ اپنے گمان پر کی ہے
وہ ستارہ شناس ایسا تھا
یا کسی نے اسے خبر کی ہے
جا رہے ہو کدھر رساؔ مرزا
دیکھتے ہو ہوا کدھر کی ہے

غزل
رات ہم نے جہاں بسر کی ہے
رسا چغتائی