رات دمکتی ہے رہ رہ کر مدھم سی
کھلے ہوئے صحرا کے ہاتھ پہ نیلم سی
اپنی جگہ ساحل سا ٹھہرا غم تیرا
دل کے دریا میں اک ہلچل پیہم سی
لمبی رات گزر جائے تعبیروں میں
اس کا پیکر ایک کہانی مبہم سی
اپنی لگاوٹ کو وہ چھپانا جانتا ہے
آگ اتنی ہے اور ٹھنڈک ہے شبنم سی
میرے پاس سے اٹھ کر وہ اس کا جانا
ساری کیفیت ہے گزرتے موسم سی
شاید اب بھی کوئی شرر باقی ہو زیبؔ
دل کی راکھ سے آنچ آتی ہے کم کم سی
غزل
رات دمکتی ہے رہ رہ کر مدھم سی
زیب غوری