راستے زیست کے دشوار نظر آتے ہیں
لوگ الفت سے بھی بیزار نظر آتے ہیں
جس کو دیکھو وہ خریدار ہوا ہے ان کا
ہر طرف مصر کے بازار نظر آتے ہیں
بل ہے ابرو پہ نظر تیز خدا خیر کرے
آج کچھ حشر کے آثار نظر آتے ہیں
منزل عشق کی راہیں ہیں بہت ہی دشوار
ہر قدم پر نئے آزار نظر آتے ہیں
کیا کہوں اک ترے جلوے کے مقابل اے دوست
چشم و دل دونوں ہی بیکار نظر آتے ہیں
یاد آ جاتے ہیں وہ جب بھی ہمیں اے جوہرؔ
ہر طرف مطلع انوار نظر آتے ہیں

غزل
راستے زیست کے دشوار نظر آتے ہیں
جوہر زاہری