راہی طرف ملک عدم ہوئی چکا تھا
تو آ گیا میں ورنہ صنم ہوئی چکا تھا
بٹھلاتی نزاکت نہ اسے گر دم رفتار
پامال یہ دل زیر قدم ہوئی چکا تھا
سرگرم سخن مجھ سے جو وہ آ کے نہ ہوتا
ٹھنڈا میں تہ تیغ ستم ہوئی چکا تھا
دیکھا بت نو خط نے جو مجھ کو تو کیا چاک
نامہ تو رقیبوں کو رقم ہوئی چکا تھا
وہ جیت گئے پانسۂ تقدیر سے تنویرؔ
پاس ان کے تو ایک ایک درم ہوئی چکا تھا

غزل
راہی طرف ملک عدم ہوئی چکا تھا
تنویر دہلوی