EN हिंदी
راہ بھولا ہوں مگر یہ مری خامی تو نہیں | شیح شیری
rah bhola hun magar ye meri KHami to nahin

غزل

راہ بھولا ہوں مگر یہ مری خامی تو نہیں

افضل خان

;

راہ بھولا ہوں مگر یہ مری خامی تو نہیں
میں کہیں اور سے آیا ہوں مقامی تو نہیں

اونچا لہجہ ہے فقط زور دلائل کے لیے
اے مری جاں یہ مری تلخ کلامی تو نہیں

ان درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
جلدی آنے کا سبب تیز خرامی تو نہیں

تیری مسند پہ کوئی اور نہیں آ سکتا
یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں

میں ہمہ وقت محبت میں پڑا رہتا تھا
پھر کسی دوست سے پوچھا یہ غلامی تو نہیں

برتری اتنی بھی اپنی نہ جتا اے مرے عشق
تو ندیمؔ و ذکیؔ و کاشفؔ و کامیؔ تو نہیں