قرص خور کو دیکھ کر تسکیں رکھ اے مہمان صبح
تا دہان شام پہنچاتا ہے رازق نان صبح
معنیٔ روشن جو ہوں تو سو سے بہتر ایک شعر
مطلع خورشید کافی ہے پئے دیوان صبح
سیر چشمی دید کے بھوکوں کی دیکھو کہتی ہے
مہ پنیر شام ہے خورشید تاباں نان صبح
صدقے اس پروردگار پاک کے جس نے کیا
بہر طفل غنچہ پیدا شیر بے پستان صبح
صبح دم غائب ہوئے انجمؔ تو ثابت ہو گیا
خندۂ بیہودہ پر توڑے گئے دندان صبح
وصل کی شب آنکھ دکھلا کر یہ انجم کہتے ہیں
لو قیامت آئی مشرق سے اٹھا طوفان صبح
دیکھے وہ گلشن جو دن دو دن رہے یاں مثل گل
ہم تو شبنم ساں نسیمؔ ایک دم کے ہیں مہمان صبح
غزل
قرص خور کو دیکھ کر تسکیں رکھ اے مہمان صبح
پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی