قریب تھا کہ حرارت سے جل اٹھا ہوتا
دیا ہتھیلی پہ کچھ وقت اگر رکا ہوتا
بنایا جاتا اگر ٹہنیوں سے پنجرے کو
قفس میں کچھ تو پرندوں کو آسرا ہوتا
تمہارے جوڑے میں ہے اس لیے سلامت ہے
یہ پھول شاخ پہ پژمردہ ہو گیا ہوتا
خدا کا شکر کہ نسبت قلم سے ہے ورنہ
ہمارے ہاتھ بھی بارود لگ چکا ہوتا
بلکتا بچہ کہاں باپ سے سنبھلتا ہے
جو ہوتی ماں تو اسے چپ کرا لیا ہوتا
تجھے لگی ہی نہیں عشق کی ہوا تاثیرؔ
وگرنہ تجھ میں کوئی اور بولتا ہوتا
غزل
قریب تھا کہ حرارت سے جل اٹھا ہوتا
محمود تاثیر