قریب بھی تو نہیں ہو کہ آ کے سو جاؤ
ستاروں جاؤ کہیں اور جا کے سو جاؤ
تھکن ضروری نہیں رات بھی ضروری نہیں
کوئی حسین بہانہ بنا کے سو جاؤ
کہانیاں تھی وو راتیں کہانیاں تھے وو لوگ
چراغ گل کرو اور بجھ بجھا کے سو جاؤ
طریق کار بدلنے سے کچھ نیا ہوگا
جو دور ہے اسے نزدیک لا کے سو جاؤ
خسارے جتنے ہوئے ہیں وو جاگنے سے ہوئے
سو ہر طرف سے صدا ہے کے جا کے سو جاؤ
یہ کار شعر بھی اک کار خیر جیسا ہے
کے طاق طاق جلو لو بڑھا کے سو جاؤ
اداس رہنے کی عادت بہت بری ہے تمہیں
لطیفے یاد کرو ہنس ہنسا کے سو جاؤ

غزل
قریب بھی تو نہیں ہو کہ آ کے سو جاؤ
رؤف رضا