قلب کو برف آشنا نہ کرو
گل کسی طور یہ دیا نہ کرو
زندگی بھی ہے ایک مرگ دوام
تم جو جینے کا حق ادا نہ کرو
جس میں پھولوں پہ پاؤں دھرنا پڑے
اختیار ایسا راستہ نہ کرو
زہر پی جاؤ بانکپن کے ساتھ
زہر چکھنے کا تجربہ نہ کرو
گر سکھائے جو جنگ بازی کے
ایسی دانش کو رہنما نہ کرو
ظلم تو ظالموں کا شیوہ ہے
قہر ہے تم جو تجزیہ نہ کرو
سب خزاں زادے کہہ رہے ہیں حزیںؔ
یاں پہ ذکر گل و صبا نہ کرو
غزل
قلب کو برف آشنا نہ کرو
حزیں لدھیانوی