قیس وہ ناتوان صحرا ہے
کالبد نیستان صحرا ہے
آتش عشق سے ہے سینہ گرم
جلوۂ برق جان صحرا ہے
تیرے دیوانہ کے لیے زنجیر
موج رنگ روان صحرا ہے
غم میں کس شعلہ رو کے دود آہ
آتش دودمان صحرا ہے
ہے جو فرہاد دعوتیٔ کوہ
قیس بھی میہمان صحرا ہے
حیف پیک اپنا رہ غلط کردہ
تازہ چشم روان صحرا ہے
ہے ہر اک حرف چشم غول وقارؔ
اس غزل میں بیان صحرا ہے
غزل
قیس وہ ناتوان صحرا ہے
کشن کمار وقار

