قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
تصور بھی چمن کا ہم کو بس ہے
بجائے رخنۂ دیوار گلشن
ہمیں صیاد اب چاک قفس ہے
فغاں کرتا ہی رہتا ہے یہ دن رات
الٰہی دل ہے میرا یا جرس ہے
کٹیں گے عمر کے دن کب کے بے یار
مجھے اک اک گھڑی سو سو برس ہے
ہماری داد کے تئیں کون پہنچے
نہ کوئی مونس نہ کوئی فریاد رس ہے
گلی میں یار کی ہو جائیے خاک
مرے دل میں یہ مدت سے ہوس ہے
سفر دنیا سے کرنا کیا ہے تاباںؔ
عدم ہستی سے راہ یک نفس ہے
غزل
قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
تاباں عبد الحی