EN हिंदी
قد سے کچھ ماورا چراغ جلے | شیح شیری
qad se kuchh mawara charagh jale

غزل

قد سے کچھ ماورا چراغ جلے

ذیشان الٰہی

;

قد سے کچھ ماورا چراغ جلے
پلکیں اٹھیں وہ یا چراغ جلے

تیرگی ختم ہو نہیں رہی دوست
دوسرا تیسرا چراغ جلے

جل اٹھا ہوں میں ہے اندھیرا کہاں
کہہ رہا تھا بڑا چراغ جلے

یوں بجھا ہے کہ دل یہ چاہتا ہے
اور اک مرتبہ چراغ جلے

گھپ اندھیرے میں آنکھیں روشن ہیں
اب یہاں اور کیا چراغ جلے

سب نے بیعت اندھیروں سے کر لی
اور میں کہتا رہا چراغ جلے

وصل ہو تو چراغاں بھی کر لیں
ہجر کی رات کیا چراغ جلے

میرا اور اس کا واقعہ یوں ہے
جب ہوا سامنا چراغ جلے

آئنہ رکھ کے سامنے دیکھا
آئنے میں سوا چراغ جلے

ضو پرانے دیوں کی کم نہیں پر
اک ذرا سا نیا چراغ جلے

بات لیکن مری سنی نہ گئی
میں نے چاہا بھی تھا چراغ جلے

مجھ کو جلتا مکاں دکھائی دیا
میں نے کی تھی دعا چراغ جلے

ایسے جلتا ہے آج دل میرا
جس طرح میرؔ کا چراغ جلے

رخ ہوا نے بدل لیا اپنا
فیصلہ ہو گیا چراغ جلے

مجھ کو جلنے میں عار کب ہے مگر
یوں جلا جس طرح چراغ جلے

اپنے حصے کا جل بجھا ذیشانؔ
اب کوئی دوسرا چراغ جلے