EN हिंदी
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے | شیح شیری
qasid us ka payam kuchh bhi hai

غزل

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے

میر محمدی بیدار

;

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے

سخن مہر خواہ حرف عتاب
اس کے منہ کا کلام کچھ بھی ہے

صاف یا درد بادۂ گلگوں
ساقیٔ لالہ فام کچھ بھی ہے

کیا غم ہجر کیا سرور وصال
گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے

اس رخ و زلف سے کہ دوں تشبیہ
خوبیٔ صبح و شام کچھ بھی ہے

یاد میں اپنے یار کے رہنا
بہتر اور اس سے کام کچھ بھی ہے

تو جو بیدارؔ یوں پھرے ہے خراب
پاس ناموس و نام کچھ بھی ہے