قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے
سخن مہر خواہ حرف عتاب
اس کے منہ کا کلام کچھ بھی ہے
صاف یا درد بادۂ گلگوں
ساقیٔ لالہ فام کچھ بھی ہے
کیا غم ہجر کیا سرور وصال
گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے
اس رخ و زلف سے کہ دوں تشبیہ
خوبیٔ صبح و شام کچھ بھی ہے
یاد میں اپنے یار کے رہنا
بہتر اور اس سے کام کچھ بھی ہے
تو جو بیدارؔ یوں پھرے ہے خراب
پاس ناموس و نام کچھ بھی ہے
غزل
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
میر محمدی بیدار