پیاس کے بیدار ہونے کا کوئی رستہ نہ تھا
اس طرف بادل نہیں تھے اس طرف دریا نہ تھا
رات کی تاریکیاں پہچان لیتی تھیں اسے
روح کی آواز تھا وہ جسم کا سایہ نہ تھا
تیری یادیں تو چراغوں کی قطاریں بن گئیں
پہلے بھی گھر میں اجالا تھا مگر ایسا نہ تھا
چند قطروں کے لئے دریا کو کیوں تکلیف دی
میری جانب دیکھ لیتے میں کوئی صحرا نہ تھا
رات آئی تو چراغوں کی بڑی تعظیم تھی
اور جب گزری تو کوئی پوچھنے والا نہ تھا
غزل
پیاس کے بیدار ہونے کا کوئی رستہ نہ تھا
اقبال اشہر