پیار کے آغوش میں ہم کو ٹھہرنا ہی نہیں
آرزو کی اس گلی سے اب گزرنا ہی نہیں
چیخیں میری سن کے بھی جب شب نے نظریں پھیر لیں
خوف کم اس تیرگی کا اب تو کرنا ہی نہیں
یہ سفر مشکل سہی پر ہم تو چلتے جائیں گے
دے کوئی آواز لیکن اب ٹھہرنا ہی نہیں
یہ غضب کی رونقیں کس کام کی اپنے لئے
صلح اب خوشیوں سے ہرگز ہم کو کرنا ہی نہیں
آب جب اس زندگی کا ہو گیا بے کار تو
ڈوب کر دوبارہ اس میں اب نکھرنا ہی نہیں
تم تھے شامل تھی اداسی بھی جنازے پر مرے
ہو چکے رخصت ہمیں اب تم پہ مرنا ہی نہیں

غزل
پیار کے آغوش میں ہم کو ٹھہرنا ہی نہیں
مونیکا شرما سارتھی