EN हिंदी
پوچھا ہی نہیں اس نے کبھی حال ہمارا | شیح شیری
puchha hi nahin usne kabhi haal hamara

غزل

پوچھا ہی نہیں اس نے کبھی حال ہمارا

خواجہ جاوید اختر

;

پوچھا ہی نہیں اس نے کبھی حال ہمارا
بس یوں ہی گزر جاتا ہے ہر سال ہمارا

رہتی ہے خبر سارے زمانے کی ہمیں بھی
پھیلا ہے بہت دور تلک جال ہمارا

مشکل ہے کسی کام کا ہونا بھی یہاں پر
ہو جاتا ہے ہر کام بہ ہر حال ہمارا

ہم نے تو نمائش بھی لگائی نہیں پھر بھی
بازار میں چل جاتا ہے ہر مال ہمارا

پہچان زمانے سے الگ ہی ہے ہماری
ملتا نہیں ہر ایک سے سر تال ہمارا

ممکن ہے کہ بن جائیں شہنشاہ غزل ہم
ویسے تو ارادہ نہیں فی الحال ہمارا