پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی
دل میں لیکن اور ہی اک شکل کی حسرت بھی تھی
جو ہوا میں گھر بنائے کاش کوئی دیکھتا
دشت میں رہتے تھے پر تعمیر کی عادت بھی تھی
کہہ گیا میں سامنے اس کے جو دل کا مدعا
کچھ تو موسم بھی عجب تھا کچھ مری ہمت بھی تھی
اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی
گو ذرا سے فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی
کیا قیامت ہے منیرؔ اب یاد بھی آتے نہیں
وہ پرانے آشنا جن سے ہمیں الفت بھی تھی
غزل
پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی
منیر نیازی