EN हिंदी
پھر یہ کس نے مجھے جگایا ہے | شیح شیری
phir ye kis ne mujhe jagaya hai

غزل

پھر یہ کس نے مجھے جگایا ہے

عزیر رحمان

;

پھر یہ کس نے مجھے جگایا ہے
پھر سے خوابوں میں کون آیا ہے

پھر سے نم یہ ہوئیں ہیں کیوں آنکھیں
پھر تمہارا خیال آیا ہے

پھر سے روٹھی ہے کیوں یہ شہنائی
پھر سے ماتم کا ماہ آیا ہے

آرزو ہو گئی ہے پھر بے باک
پھر خبر گرم کوئی لایا ہے

پھر نئے سال کی ہے تیاری
جشن پر گولیوں کا سایا ہے

پھر چمن میں رہے گا ہنگامہ
پھر نیا پھول کوئی آیا ہے

پھر سے بادل ہیں آسمانوں میں
ابر امیدیں لے کر آیا ہے

پھر سزا کا ہوا ہے اندیشہ
مجھ کو تنہائی میں بلایا ہے

پھر سے تاریخ بن گیا موضوع
پھر سے قصہ نیا بنایا ہے

پھٹ رہی ہے یہ پھر سے دھرتی کیوں
پھر سے یزداں کا قہر آیا ہے

گھر ہوا ہے خدا کا ویراں پھر
پھر سے آسیب اس پہ چھایا ہے

پھر سے قانون طاق پر رکھا
پھر سے دنگائیوں کو لایا ہے

دیکھو تو غور سے وہی ظالم
پھر سے چہرہ بدل کے آیا ہے

پھر سے چھائی ہے ایک خاموشی
پھر نیا ظلم کوئی ڈھایا ہے

پھر ہے بستی میں ایک بے چینی
پھر نیا فتنہ آزمایا ہے

پھر سے خطرہ کھڑا ہے منہ کھولے
پھر سے اپنا ہوا پرایا ہے

پھر سے مندر میں شنکھ پھونکے ہیں
پھر سے گنبد میں خوف آیا ہے

سازشیں بند ہوں تو دم آئے
پھر لگے دیش لوٹ آیا ہے