پھر ترے ریشمی لب مجھ کو منانے آئے
پیاس جنموں کی پھر اک بار بجھانے آئے
یاد سے اس کی کہو آج ستانے آئے
خواب آنکھوں سے، سکوں دل سے چرانے آئے
آج پھر درد کے بازار سجے ہیں یارو
اشک پھر آنکھوں میں دوکان لگانے آئے
تو نے احساس کی دولت سے نوازا تھا مگر
زیست کے فکر و الم ہوش اڑانے آئے
منتظر آج تلک بھی ہیں کہ اس رات کبھی
تو کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
کم سنی مجھ میں یہی سوچ کے زندہ ہے سحرؔ
میں جو روٹھوں تو کبھی تو بھی منانے آئے
غزل
پھر ترے ریشمی لب مجھ کو منانے آئے
نینا سحر