EN हिंदी
پھر کوئی مشکل جواں ہونے کو ہے | شیح شیری
phir koi mushkil jawan hone ko hai

غزل

پھر کوئی مشکل جواں ہونے کو ہے

امر سنگھ فگار

;

پھر کوئی مشکل جواں ہونے کو ہے
دوستوں کا امتحاں ہونے کو ہے

جھونکے دم سادھے کھڑے ہیں چار سو
کوئی ہنگامہ یہاں ہونے کو ہے

بھیگ جانے پر بھی جو بجھتا نہ تھا
آج وہ شعلہ دھواں ہونے کو ہے

یہ بہاریں اور گل بوٹے نڈھال
فصل گل دور خزاں ہونے کو ہے

زندگی سے کیجیے امید کیا
زندگی خود رائیگاں ہونے کو ہے

ضبط کا حد سے گزرنا دیکھیے
راز آنکھوں سے بیاں ہونے کو ہے

منزل مقصود جب آئی نظر
راہبر سنگ‌ راں ہونے کو ہے