پھٹا ہوا جو گریباں دکھائی دیتا ہے
کسی کا درد نمایاں دکھائی دیتا ہے
نکلنا چاہتا ہوں جسم کے حصار سے میں
کہ اپنا تن مجھے زنداں دکھائی دیتا ہے
سرائے دہر میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں
عجیب بے سر و ساماں دکھائی دیتا ہے
ترے لبوں کے تبسم کو کس سے دوں تشبیہ
کہ غنچہ بھی تو پریشاں دکھائی دیتا ہے
ہر ایک شخص کسی خوف کی گرفت میں ہے
تمام شہر ہراساں دکھائی دیتا ہے
جو ہو سکے تو کبھی اس کی روح میں جھانکو
قبا پہن کے جو عریاں دکھائی دیتا ہے
معاش ایسی کہ سنسان ہیں گلی بازار
بھٹکتا ایسا کہ انساں دکھائی دیتا ہے
غزل
پھٹا ہوا جو گریباں دکھائی دیتا ہے
عابد ودود