پھیلی ہوئی ہے ساری دشاؤں میں روشنی
لیکن نہیں چراغ کی چھاؤں میں روشنی
اب تو پنپنے والی ہیں روشن خیالیاں
آئی نئی نئی مرے گاؤں میں روشنی
اک ہاتھ دوسرے کو سجھائی نہ دے مگر
ہم نے چھپا رکھی ہے رداؤں میں روشنی
دین و معاشیات و سیاست کے پیشوا
ذہنوں میں تیرگی تو اداؤں میں روشنی
سب لوگ مشعلوں کی تمنا میں خار تھے
گرچہ پڑی تھی اپنے ہی پاؤں میں روشنی
ذیشاںؔ سیاہیوں کے نمائندہ بھی ہیں ہم
اور ہم ہی چاہتے ہیں عطاؤں میں روشنی
غزل
پھیلی ہوئی ہے ساری دشاؤں میں روشنی
ذیشان ساجد