پھیلا نہ یوں خلوص کی چادر مرے لئے
کل تک تھا تیرے ہاتھ میں پتھر مرے لئے
پلکوں پہ کچھ حسین سے موتی سجا گیا
پھر سونی سونی شام کا منظر مرے لئے
دیوار و در سے اس کے ٹپکتی ہے تشنگی
اک دشت بے کراں ہے مرا گھر مرے لئے
خوشبو جو پیار کی مجھے دیتا تھا اب وہی
رکھتا ہے دست ناز میں خنجر مرے لئے
یہ شب بڑی طویل ہے جاؤں کہاں ولیؔ
اب بند ہو چکے ہیں سبھی در مرے لئے

غزل
پھیلا نہ یوں خلوص کی چادر مرے لئے
ولی مدنی