پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
باغبانوں کو عجب رنج سے تکتے ہیں گلاب
گل فروش آج بہت جمع ہیں گلزار کے بیچ
قاتل اس شہر کا جب بانٹ رہا تھا منصب
ایک درویش بھی دیکھا اسی دربار کے بیچ
کج اداؤں کی عنایت ہے کہ ہم سے عشاق
کبھی دیوار کے پیچھے کبھی دیوار کے بیچ
تم ہو نا خوش تو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فرازؔ
لوگ رہتے ہیں اسی شہر دل آزار کے بیچ
غزل
پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
احمد فراز