پتھر نظر تھی واعظ خانہ خراب کی
ٹوٹی ہے کیا تڑاق سے بوتل شراب کی
کچھ آسماں نے خاک اڑائی پس فنا
کچھ تم نے اے بتو مری مٹی خراب کی
پی کر نہ ضبط واعظ کم ظرف سے ہوا
کیا اپنے ساتھ مے کی بھی مٹی خراب کی
کانٹا ہوں باغ میں تو میں بجلی ہوں چرخ پر
یہ رنگ لاغری ہے وہ شکل اضطراب کی
بوئے شراب آتی ہے ہر اک نفس کے ساتھ
پہلو میں دل ہے یا کوئی بوتل شراب کی
لیل و نہار بھی ہیں حسینوں کے واسطے
دن آفتاب کا ہے تو شب ماہتاب کی
میرے گنہ جو چشم کرم میں سما گئے
آنکھیں جھکا کے رہ گئی میزاں حساب کی
آئی جو روح پیکر خاکی میں اے وسیمؔ
گھبرا کے بول اٹھی مری مٹی خراب کی

غزل
پتھر نظر تھی واعظ خانہ خراب کی
وسیم خیر آبادی